ISSI - Institute of Strategic Studies Islamabad

01/09/2025 | Press release | Distributed by Public on 01/09/2025 23:01

پریس ریلیز: آئی ایس ایس آئی نے بھارت کی انتخابی سیاست سے متعلق خصوصی...

پریس ریلیز: آئی ایس ایس آئی نے بھارت کی انتخابی سیاست سے متعلق خصوصی تحقیقی رپورٹ جاری کر دی۔

January 10, 2025
36

پریس ریلیز

آئی ایس ایس آئی نے بھارت کی انتخابی سیاست سے متعلق خصوصی تحقیقی رپورٹ جاری کر دی۔

آئی ایس ایس آئی نے بھارت کی انتخابی سیاست سے متعلق خصوصی تحقیقی رپورٹ جاری کر دی۔

انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کے انڈیا اسٹڈی سینٹر (آئی ایس سی) نے اپنی خصوصی تحقیقی رپورٹ بعنوان "Quantifying Electoral Politics of Congress and BJP" جاری کر دی۔ یہ رپورٹ ڈائریکٹر انڈیا سٹڈی سنٹر ڈاکٹر خرم عباس، اور تحقیق کاروں ماہین شفیق اور اسامہ حمید نے تیار کی ہے۔ بھارتی لوک سبھا کے 18ویں الیکشن کے متعلق پاکستان میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی تحقیق، حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے اراکین پارلیمنٹ کے تقابلی جائزے کے ذریعے ہندوستان میں جاری سیاسی رجحانات کا جامع تجزیہ پیش کرتی ہے۔ رپورٹ میں دونوں جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کے نسلی پس منظر، مذہبی وابستگی، اثاثہ جات، اور خاندان کی سیاسی وابستگی جیسے مختلف عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے۔

رپورٹ کی تقریب رونمائی سے ممتاز دانشوروں، ماہرین، محققین اور سفرائے کرام نے خطاب کیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے چیئرمین جناب خالد رحمان کے کلیدی خطاب کے علاوہ ایمبسڈر بابر امین، سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز آزاد جموں و کشمیر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ، اور انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز اسلام آباد کی ریسرچ فیلو محترمہ مریم مستور مقررین میں شامل تھے۔

اپنی تعارفی گفتگو میں ڈاکٹر خرم عباس نے اعداد و شمار پر مبنی اس مطالعے کی اہمیت اور اس کے پیچھے استدلال اور طریقہ تحقیق کا تعارف کرایا جو ڈیٹا کو جمع کرنے اور تجزیہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

اس موقع پر اپنے ریمارکس میں ڈی جی آئی ایس ایس آئی ایمبسڈر سہیل محمود نے کہا کہ ہندوستان میں 2024 کے انتخابات اپنے پھیلاؤ اور سیاسی اثرات کے حوالے سے خاص طور پر قابل ذکر تھے۔ 969 ملین سے زیادہ رائے دہندگان کے حامل یہ انتخابات سات مراحل پر محیط تھے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ بی جے پی نے "اب کی بار 400 پار" جیسے نعروں کے ساتھ جارحانہ انتخابی مہم چلائی، تاہم حکمران جماعت کی کارکردگی اس کی مقبولیت میں کمی کی نشان دہی کر رہی ہے کیونکہ 2019 میں 303 کے مقابلے میں بی جے پی کی سیٹیں 240 تک آگئی ہیں۔

ایمبسڈر سہیل محمود نے زور دیا کہ ہندوستان کی جمہوری شناخت پرانے، جابرانہ ذات پات کے نظام اور طبقاتی تقسیم سے پیدا ہونے والی سماجی-سیاسی ناہمواریوں سے تیزی سے متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں کا کہنا تھا کہ ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے میں ہندو قوم پرست ایجنڈے کی آمیزش بین الاقوامی سطح پر سنگین تشویش کا باعث ہے، اسکالرز اسے 'نسلی' یا 'غیر لبرل' جمہوریت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ V-Dem انسٹی ٹیوٹ جیسے عالمی ادارے ہندوستان کی درجہ بندی "انتخابی آمریت" کے طور پر کرنے لگ گئے ہیں۔ سہیل محمود نے 18ویں لوک سبھا میں بی جے پی اور کانگریس کے ارکان کی مکمل تحقیق کرنے پر آئی ایس سی ٹیم کی تعریف کی اور ہندوستانی ریاست اور معاشرہ کے حوالے سے اس نوعیت کے تحقیقی کام کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئرمین جناب خالد رحمان نے اپنے کلیدی خطاب میں ہندوستان کے انتخابی عمل کے بارے میں ایک تنقیدی نقطہ نگاہ پیش کرتے ہوئے سوال کیا کہ آیا "سب سے بڑی جمہوریت" ہونے کا دعویٰ حقیقی جمہوری مادّے کی عکاسی کرتا ہے یا یہ محض ایک ظاہری پردہ ہے۔ انہوں نے ووٹر فہرستوں میں ہیرا پھیری، سول سوسائٹی کی تنظیموں کو دبانے اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے عمل میں تبدیلیوں جیسے انتظامی مسائل کی نشان دہی کی جن کے ذریعے ایگزیکٹو کا قبضہ مستحکم ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عوامل بھارت کے جمہوری اصولوں اور انتخابی عمل کے بارے میں سنگین خدشات پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان سے متعلقہ موضوعات پر ڈیٹا پر مبنی تحقیقی کام کو وسعت دینے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

ایمبسڈر بابر امین نے بی جے پی کے زیر حکمرانی ہندوستان میں کے ریاستی و سماجی ڈھانچے سے اقلیتوں کے منظم اخراج کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ موجودہ ریاست میں اقلیتوں کے حقوق اور مفادات تیزی سے نظر انداز ہو رہے ہیں۔ مزید برآں، مقرر نے ہندوستانی سیاسی نظام میں دولت کے اس خطرناک کردار کے بارے میں خبردار کیا، جہاں مالدار اشرافیہ فیصلہ سازی، قانون سازی اور پالیسی سازی میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پیسے اور اثر رسوخ کا بھرپور استعمال کرتی ہے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ معاشی طاقت کے اس ارتکاز کے نتیجے میں ایسی پالیسیاں سامنے آئی ہیں جو سماجی عدم مساوات کو بڑھاتے ہوئے امراء کے مفادات کو پورا کرتی ہیں۔

ہندوستان کی جمہوریت کے حوالے رائج غلط فہمیوں کے خاتمے پر ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ نے اس خصوصی تحقیق کی تعریف کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس مطالعہ میں سامنے آنے والے حقائق ایک عام ہندوستانی کی نمائندگی کرنے کے بی جے پی کے ظاہری دعووں کی تردید کرتے ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی جمہوریت کی موجودہ حالت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہاں جمہوری اقدار کا بنیادی مجموعہ تیزی سے غائب ہو رہا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جمہوری اصولوں کا یہ تعطل ہندوستان میں جمہوری طرز حکمرانی کے حقیقی جوہر کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ نے ہندوستانی سیاسی نظام میں انتخابی بانڈز کے کردار پر بھی روشنی ڈالی اور واضح کیا کہ اس طریقے سے سیاسی جماعتوں کو ملنے والے عطیات اور فنڈز سیاسی اشرافیہ اور طاقتور سرمایہ داروں کے درمیان گہرے روابط کو ظاہر کرتے ہیں۔

اپنے تبصرے میں مریم مستور نے ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کی سنگین سیاسی حق تلفیوں، کانگریس پارٹی کی سیکولرازم سے وابستگی، اور ملک کے سیکولر چہرے کے مستقبل کے بارے میں تنقیدی نکات اٹھائے۔ مریم مستور نے سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے مطالبات کے باوجود ملک بھر میں ذاتوں کی مردم شماری کرانے میں بی جے پی کی ہچکچاہٹ پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کی مردم شماری ان مراعات اور مواقع پر براہ راست ضرب لگائے گی جن سے اعلیٰ ذاتوں کا ایک حصہ موجودہ ڈھانچے کے تحت لطف اندوز ہو رہا ہے۔

تقریب کا اختتام ایک دلچسپ سوال و جواب کے سیشن کے ساتھ ہوا۔ خصوصی تحقیقی رپورٹ آئی ایس ایس آئی کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے۔